عاشورہ یہ مہینے کے شروع کے دس دن یا ہر مہینے کی دسویں تاریخ کو کہتے ہیں، ویسے عرف میں عاشورہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا نام ہے_
ہر کوئی جانتا ہے کہ اسلامی اور ہلالی سال کا آغاز اسی پاک مہینے محرم الحرام سے ہوتا ہے، لوگ اسے ہجری سال اور قمری تقویم کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں_
قرآن پاک اور حدیث شریف میں محرم اور عاشورہ کی فضیلت اور برتری کا بیان موجود ہے، اس کی تاریخی اہمیت کا تذکرہ ہے، اس ماہ مبارک میں خصوصی برکت کی ارزانی ہوتی ہے، خاص رحمت کی فراوانی ہوتی ہے، اچھے بھلے کاموں پر ثواب کا بہتات ہوتا ہے، اس ماہ کی فضیلت اور مبارک لمحوں سے سابقہ امتوں نے بھی فیض کشید کیا ہے، اس کی برکتوں سے اپنے جھولیوں کو بھرا ہے،اس ماہ میں ہونے والی رحمت کی بارش سے اپنے وجود کو تر کیا ہے، اور پھوٹنے والی خوشبو سے اپنے پیرہن کو معطر کیا ہے، خالق کی اطاعت و بندگی سے خدا کو راضی کیا ہے_
ہمارے لئے بھی نیک بختی اور سعادت ہوگی کہ ہم اس پاک ماہ کے فضائل اور حقیقت سمجھ کر خدا کو راضی کریں، رسم، رواج اور بدعات سے اپنے دامن کو میلا اور بدبودار ہونے سے محفوظ رکھیں، دل کو سیاہ ہونے سے بچائیں_
الله پاک کا ارشاد ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کا شمار بارہ ہے، الله کی کتاب کے مطابق، جس دن سے اللہ نے اسمان و زمین کو پیدا کیا ان میں سے چار حرمت و ادب والے مہینے ہیں، اور یہی درست دین ہے_ (التوبہ :۳۶)
مفسرین کی تفسیر کے موافق حرمت والے مہینوں میں محرم کا بھی مہینہ ہے_
نبی کریم ﷺ نے اپنی برکت والی زبان سے محرم کو الله کا مہینہ قرار دیا ہے ، ارشاد فرمایا کہ رمضان کے روزوں کے بعد الله کا مہینہ محرم کا روزہ افضل ہے ، أفضلُ الصيامِ بعدَ رمضانَ شهرُ اللهِ المُحَرَّمُ، حدیث پاک میں ماہ محرم کی نسبت الله کی طرف کی گئی ہے جس سے اس کی شرافت معلوم ہوتی ہے _
یوم عاشورہ کے روزے کی فضیلت نقل کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا : رمضان اور عاشورہ کے روزے کے علاوہ کسی دن کو کسی دن پر برتری حاصل نہیں ہے، لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَھْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ رواه الطبراني .
اور آپ علیہ السلام کا اہتمام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی فضیلت والے دن میں میں نے رسول پاک کو روزے کا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا صرف اس دن یعنی یوم عاشورہ کے اور اس مہینے یعنی رمضان کے _(ما رَأَيْتُ النبيَّ ﷺ يَتَحَرّى صِيامَ يَومٍ فَضَّلَهُ على غيرِهِ إلّا هذا اليَومَ؛ يَومَ عاشُوراءَ، وهذا الشَّهْرَ. يَعْنِي شَهْرَ رَمَضانَ.) رواه البخاري (٢٠٠٦) ذکر شدہ حدیثوں سے عاشورہ کے روزے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہورہی ہے، اس دن کے روزہ سے نبی پاک کا خاص اہتمام اور لگاؤ کا علم ہو رہا ہے ایک دفعہ کی بات ہے آپﷺ نے مدینہ کے اطراف میں بسنے والے محلوں اور گاؤں یہ خبر بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہیں ہے وہ آج کے دن روزہ رکھیں، جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں، بلکہ روزہ داروں کی طرح دن گذاریں، حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص نے عاشورہ کا روزہ رکھا یہ روزہ گزشتہ سال کا کفارہ ہے ، صيامُ يومِ عرفةَ إنِّي أحتسبُ على اللَّهِ أن يُكفِّرَ السَّنةَ الَّتي قبلَهُ والَّتي بعدَهُ.
یوم عاشورہ کے روز اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں پر خرچ کرنے میں وسعت کرنے پر بھی فضیلت وارد ہوئی ہے، اس مبارک مہینے میں خرچ میں فراخی کرنے سے تمام سال الله کی جانب سے زرق میں کشادگی اور فراوانی ہوتی ہے، آپ ﷺ کا گرامی قدر فرمان ہے، من أوسَع على عيالِه وأهلِه يومَ عاشوراءَ أوسع اللهُ عليه سائرَ سنتِه ، کہ جو شخص بھی عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرے گا اللہ پورے سال اس کے رزق میں فراخی عطا کرے گا۔
محترم قارئین
ہم مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ اس حرمت والے مہینے کا احترام کریں ،اس متبرک اور فضل والے دن سے برکت اور فیض حاصل کریں، یوں ہی ان مبارک گھڑیوں کو ضائع کرنے سے بچیں، لیکن حسرت و ملال کی بات ہے کہ ہم نے محرم کے عشرۂ اول کو خرافات کا موسم بنا رکھا ہے، اس مبارک ایام میں ہمارے ہاتھوں سے رسم و رواج پروان چڑھ رہے ہیں، جس میں ہمارے معاشرے کے نوجوان طبقہ کے لئے خاص طور پر دلچسپی کا سامان ہے، بات غیروں کی نہیں ہورہی، اپنوں کی ہورہی ہے،سنت و جماعت کے افراد جس معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اور اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں، آسانی سے یا ادنی فکر سے کچھ سالوں میں ان خرافات پر لگام کسا جا سکتا ہے، وہاں بھی وہ رسم و رواج تہوار کی طرح دھوم دھام سے انجام پارہے ہیں_
محرم کا چاند افق سے ابھرا نہیں کہ ہمارے نوجوانوں کی زبانوں پر یاحسین کا نعرہ شروع ہوجاتا ہے، ہاتھوں میں ڈنڈے، لاٹھیاں، چمکتی ہوئی تلواریں، نوکیلے بھالےاور تیز برچھے ہوتے ہیں، وہ ڈھولک کی تھاپ پر راتوں کو رقص و سرود اور مستی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جسے جھرکی یا محرم کھیلنا کہا جاتا ہے، بیشتر جگہوں پر عورتیں بھی اس منظر کو دیکھنے کے لئے شرکت کرتی ہیں، ان مواقع پر بعض دفعہ ناجائز رشتے بھی وجود میں آتے ہیں ،لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ یہ عمل سراپا ناجائز اور غیر شرعی امور پر ٹکا ہے_
ایک بدعت "تعزیہ" کا بھی ہے، محرم کے دنوں میں حضرت حسین اور دیگر شہداء کربلا کی تربتوں کی نقل بطور یادگار بناتے ہیں جو کپڑے، کاغذ، بانس، لکڑی وغیرہ کے قُبّے اور مناروں کی شکل میں ہوتے ہیں، جو مختلف صورت اور چھوٹے بڑے قد کے ہوتے ہیں، ان کا ماتم کیاجاتا ہے فاتحہ دلایا جاتا ہے، ان پر پھول لٹایا جاتا ہے، خشبو چھڑکی جاتی ہے، حضرت حسن اور حسین کا نعرہ لگاتے ہیں، کچھ لوگ منت بھی مانتے ہیں_
۸/محرم کو ہمارے دیار میں چوکی بھرائی کی رسم کو بھی زور حاصل ہے، کسی خاص مقام کو صاف ستھرا کرکے چراغاں کیا جاتا ہے، اگربتی جلائی جاتی ہے، پھر حلوہ ، مٹھائی پر فاتحہ درود پاک اور دعا پڑھ کر حضرات حسنین کریمین کے لئے ایصال ثواب ہوتا ہے، اس رسم کے لوازمات موقع محل اور جگہ کے لحاظ سے کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں ایصال ثواب کا جو یہ خاص طریقہ عاشورہ کے دن رائج ہے یہ بدعت ہے ترک کرنے کے قابل ہے، اس کے علاوہ بھی اور ساری دوسری جگہوں پر الگ الگ رواج ہے جو جڑ پکڑے ہوئے ہے_
کیا حضرت حسین اور ان کے اصحاب و احباب کی شہادت اس لئے تھی کہ ان کے نام پر خرافات ہو ،دلدل نچایا جائے
تعزیہ سازی اور جلوس ہو، شہداء کی ماتم ہو، نوحہ کی محفل ہو، نہیں! بلکہ وہ شہادت حق کے لئے تھی، خدائی نظام کے لئے تھی، خرافات کو مٹانے کے لئے تھی، بدعتوں کی کمر توڑنے کے لئے تھی، رسم و رواج کو دور کرنے کے لئے تھی، اس شہادت سے باطل کا منہ کالا ہوا، حق کا بول بالا ہوا، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان اصحاب خیر کی شہادت آج ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے شرمندہ ہے، ہم ان کی شہادت کے عظیم مقصد کو بھولا رہے ہیں، جو درس حضرت حسین نے ہمیں کربلا کے میدان میں دیا تھا وہ ہم سے فراموش ہو رہا ہے _
میرے پیارے قاری! جب یہ مہینہ اللہ کا مہینہ ہے، محترم ہے، بزرگ ہے، تو اس کی کی بزرگی، نجابت، شرافت اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ کہ ہم اس مبارک مہینے کی عزت و حرمت کی پاسداری کریں، لڑائی جھگڑا فساد سے پرہیز کریں، گناہ کے کاموں سے توبہ کریں، بدعت و خرافات سے کنارہ کشی اختیار کریں، استغفار خوب کریں، فرائض کی پابندی ہو، نوافل سے دلچسپی ہو ، اپنی طاقت اور قدرت کے مطابق روزہ رکھیں،اور خدا کی اس ماہ میں راضی کرلیں یہ قدرت کی طرف سے انمول تحفہ ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے_
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔