نئی دہلی : سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک تاریخی فیصلے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی متنازعہ دفعہ 66(A) کو مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے شہریوں کے خلاف اس دفعہ کے تحت کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔
سیکشن 66(A) کیا ہے؟
انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے سیکشن 66(A) کے تحت، پولیس کو کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور گرفتار کرنے کا اختیار تھا اگر ان کی سوشل میڈیا پوسٹ کو قابل اعتراض، غلط یا اشتعال انگیز سمجھا جاتا ہے۔ اس دفعہ کا کئی بار غلط استعمال ہوا اور عام شہریوں، صحافیوں اور کارکنوں کو اس کا نشانہ بننا پڑا۔
سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی کیوں قرار دیا؟
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل وویک ساجن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ یہ دفعہ آزادی اظہار کی خلاف ورزی کرتی ہے اور پولیس کو من مانی کارروائی کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ عدالت نے اس دلیل سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ شق آئین کے آرٹیکل 19(1)(A) کے تحت دی گئی آزادی اظہار کے خلاف ہے۔
اب کیا ہوگا؟
اس فیصلے کے بعد فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کرنے والے شہری بلا خوف اپنی رائے کا اظہار کر سکیں گے۔ پولیس اب اس دفعہ کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گی۔
2015 میں بھی تنقید ہوئی تھی۔
غور طلب ہے کہ 2015 میں بھی سپریم کورٹ نے اس دفعہ کو غیر آئینی قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود پولیس نے بعض معاملات میں اس کا استعمال کیا۔ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ یہ دفعہ مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے اور اسے کسی بھی حالت میں لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
اظہار رائے کی آزادی کو ایک نئی جہت ملی سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کو جمہوریت اور شہری حقوق کی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ خاص طور پر ان صحافیوں، سماجی کارکنوں اور عام شہریوں کے لیے راحت کا باعث ہے جنہیں پہلے اپنے اظہار خیال کی وجہ سے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نتیجہ یہ فیصلہ نہ صرف سوشل میڈیا صارفین کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ اب شہری آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں، ان کے خلاف کسی غیر قانونی کارروائی کے خوف کے بغیر ۔